the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
اُردو یونیورسٹی میں صنفی تشدد کے تدارک پر ویبنار کا آغاز۔ صدر نشین خواتین کمیشن ، ڈالفی ڈسوزا و دیگر کے خطاب
حیدرآباد، 12 جنوری (پریس نوٹ) صنفی مساوات کو اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب خواتین اپنے حقوق سے واقف ہوں۔ خواتین کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں لیکن اس سے سماج میں تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ ہم اپنے خاندان میں تبدیلی نہ لے آئیں۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین بھی تشدد کا شکار ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ موجودہ نظام کے خلاف جانا نہیں چاہتیں، اس لیے خاموش رہتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہارمحترمہ ریکھا شرما، صدر نشین قومی خواتین کمیشن نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، مرکز برائے مطالعاتِ نسواں اور سنٹر فار ڈیولپمنٹ پالیسی اینڈ پریکٹس (سی ڈی پی پی)، حیدرآباد کے زیر اہتمام صنف کی بنیاد پر تشدد کے تدارک اور شعور بیداری کے لیے منعقدہ ویبنار کے افتتاحی دن کیا۔ وزارتِ بہبودی ¿ فروغِ خواتین و اطفال کی ہدایت پر 16 دن تک ویبنار منعقد کیا جارہا ہے۔پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔ جناب ڈالفی ڈسوزا مہمانِ خصوصی تھے۔ اس ویبنار کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں تیزاب حملہ سے متاثرہ خواتین محترمہ روپا اور محترمہ پرمودنی راول بھی شریک تھیں اور انہوں نے اپنی دلسوز کہانی بھی سنائی۔
محترمہ ریکھا شرما نے کہا کہ خواتین 50 فیصد ہیں اس کے باوجود پارلیمنٹ میں 33 فیصد کی مانگ کی جارہی اور وہ بھی نہیں مل پار ہا ہے۔ حالانکہ خواتین کے پولیس اسٹیشن ہوتے ہیں لیکن وہاں پر بھی اکثر خواتین کو انصاف نہیں مل پاتا۔ اگر ظالم شخص کا کوئی سیاسی تعلق ہوتا ہے یا وہ دولت مند ہو تو پولیس مصیبت زدہ خواتین کی مدد نہیں کرتی۔ اس سلسلہ میں این سی ڈبلیو، نلسار کے ساتھ مل کر قوانین کے تئیں شعور بیداری پروگرام کر رہی ہے۔ خواتین کو گرام پنچایت، اسمبلی، پارلیمنٹ میں اپنی جگہ بنانی ہوگی تاکہ خواتین کو باختیار بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ این سی ڈبلیو خواتین کے ہر کیس پر توجہ دیتی ہے لیکن میڈیا محض اپنی ٹی آر پی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ذکر کرتی ہے۔ 
جناب ڈالفی ڈسوزا، پراجیکٹ لیڈ ممبئی نے کہا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کے معاملے میں سیول سوسائٹیز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ان خواتین کی ممکنہ مدد کرے۔ پولیس، انصاف فراہم کرنے والے اداروں ، ہسپتالوں اور سیول سوسائٹی میں کام کرنے والوں کے لیے صنفی حساسیت پر مبنی پروگرام منعقد کرتے ہوئے شعور



بیدار کریں، محکمہ پولیس میں خواتین کی تعداد میں اضافہ کرے ۔ ریاستی اور ضلعی سطح پر نگرانکار کمیٹیاں قائم کی جائیں جو تشدد کا شکار خواتین تک انصاف رسانی کو آسان بناسکے ۔ اس طرح خواتین پر ہو رہے مظالم کا کچھ حد تک سدباب ممکن ہے۔جناب ڈالفی نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ اپنے لکچر میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ خواتین کے خلاف جرائم میں مسلسل بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی پولیس افسر خواتین کے خلاف جرائم میں ایف آئی آر درج نہیں کرتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہوسکتی ۔ 
پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اقدار کی کمی کے باعث خواتین کے خلاف تشدد ہو رہا ہے۔ بچوں کو اچھی قدریں سکھائیں اور سمجھائیں کہ ہر ایک کا عزت و احترام اور بالخصوص خواتین کا احترام ضروری ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پہلے مشترکہ فیملی کلچر کے باعث بچوں میں اقدار موجود تھیں لیکن آج کل سنگل فیملی کے باعث ان اقدار میں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ قانون کا ڈر بھی نہیں رہاجس کے باعث ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ 
پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے مانو کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر مذہب میں مساوات کا درس ہے۔ جہاں طاقتور کمزور کو دباتا ہے وہاں پر کمزوروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آپس میں مل کر ایک طاقت بنیں۔ جناب اشیش شکلا، منیجنگ ڈائرکٹر، چھاﺅں فاﺅنڈیشن مہمانِ اعزازی نے بتایا کہ 2013 سے پہلے ہندوستان میں ایسڈ اٹیک پر کوئی خصوصی قانون نہیں تھا۔ کئی قوانین وضع کیے گئے لیکن ان پر عمل آوری نہیں ہو پارہی ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے لڑکوں کی صحیح تربیت ضروری ہے۔ پروفیسر عامر اللہ خان، ریسرچ ڈائرکٹر سی ڈی پی پی ، نے کہاکہ ہندوستان کو ترقی دینا ہے تو خواتین کو ترقی دینا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں تحفظات کی بات کرتے ہیں تو کوئی سیاسی پارٹی آگے نہیں بڑھتی۔ پروفیسر شاہدہ مرتضیٰ، ڈائرکٹر انچارج مرکز مطالعاتِ نسواں نے ویبنار کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی کیسس جیسے نربھیا وغیرہ میں میڈیا کا رول بڑا ہی غیر ذمہ دارانہ اور غیر حساس رہا ہے۔ انہوں نے پروفیسر ریکھا شرما اور جناب اشیش شکلا، کا تعارف بھی پیش کیا اور شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر محمد عبدالسمیع صدیقی، ڈائرکٹر، اردو مرکز پیشہ ورانہ فروغ برائے اساتذہ ¿ اردو ذریعہ تعلیم نے خیر مقدم کیا اور کاروائی چلائی۔ جناب صالح امین نے ابتداءمیں قرات کلام پاک و ترجمہ پیش کیا۔ 

اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.