ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کی جنرل باڈی میٹنگ میں محمد لطیف خان کا دل کو چھو لینے والا خطاب
حیدرآباد، 12 جون 2025:(پریس نوٹ) نئے تعلیمی سال کے آغاز پر ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کی سالانہ جنرل باڈی میٹنگ بھارتیہ ودیا بھون کنگ کوٹھی حیدرآباد، میں منعقد ہوئی، میٹنگ میں ایم ایس کریئٹیو اسکول کے تمام برانچز کے اساتذہ شریک تھے۔ یہ میٹنگ ایک روح پرور اور فکرانگیز تربیتی نشست میں تبدیل ہوگئی جب ایم ایس کےبانی و چیئرمین، محمد لطیف خان نے ایک جذباتی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا جس کے ذریعہ محمدلطیف خان نے نہ صرف تعلیمی رہنمائی دی بلکہ ایک ٹیچرکے اصل مقام و ذمہ داری سے بھی روشناس کرایا۔
خطاب کے آغاز میں دو مختصر ویڈیوز پیش کی گئیں— ایک میں ایک خاندان صرف قربانی کا گوشت جمع کرتا ہے جبکہ دوسری میں ایک لڑکا قربانی کاگوشت اپنے امیر رشتہ داروں کے بجائے ایسے غریب دوست کو دیتا ہے جو واقعی مستحق تھا۔ ان دو مناظر نے خودغرضی اور ایثار کے درمیان فرق کو بخوبی واضح کیا۔ لطیف صاحب نے اس موقع پر کہا: "ہمیں صرف ٹیچنگ نہیں، نرچرنگ یعنٰی تربیت کرنا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کا اصل ہدف صرف ذہین طالب علم تیار کرنا نہیں بلکہ ایسے انسان پیدا کرنا ہے جو دل والے ہوں، جو دوسروں کے لیے جینے کا ہنر رکھتے ہوں۔ "جیسے ہم اپنی اولاد کو ایثار سکھاتے ہیں، ویسے ہی ہر طالب علم کو اپنی اولاد سمجھنا ہوگا۔"
اپنے خطاب میں انہوں نے ایک دلچسپ مگر سبق آموز حکایت سنائی، جس میں تین کالے افراد کو ایک پری تین خواہشات کا اختیار دیتی ہے۔ دو نے اپنی رنگت بدلنے کی خواہش کی، جب کہ تیسرے نے حسد میں آ کر چاہا کہ دونوں پھر سے کالے ہو جائیں۔ اس کہانی کے ذریعے چیئرمین محمد لطیف خان
نے معاشرے میں بڑھتی ہوئی خودغرضی، حسد اور منفی سوچ کو پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا مقصد صرف نصابی معلومات دینا نہیں بلکہ کردار سازی ہے، اور یہ تبھی ممکن ہے جب استاد صرف "فلاور سیلر" نہیں بلکہ "گارڈنر" بنے— جو طلبہ کے ذہن و دل کو سنوارے۔
ان کا کہنا تھا: "تعلیم صرف ڈگری نہیں، دلوں کو جوڑنے کا فن ہونا چاہیے۔ ہمارے بچے صرف مسلمان نہیں، انسان بنیں— ہر انسان کا احترام کریں۔"
لطیف صاحب نے متعدد عملی مثالیں پیش کیں کہ تربیت کس طرح روزمرہ کلاس روم میں شامل کی جا سکتی ہے: پانی ضائع نہ کرنا، بجلی بچانا، کھانے کا احترام، جانوروں پر رحم، ہر مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک— یہ سب تربیت کا حصہ ہیں۔ حدیثِ نبوی ﷺ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے یاد دلایا کہ ایک عورت محض ایک بلی کو بھوکا مارنے پر جہنم میں گئی، تو ہمیں بچوں کو سکھانا ہے کہ ہر جان کی قدر کریں۔
انہوں نے کہا کہ استاد کا لب و لہجہ نرم، الفاظ شفیق اور انداز ناصحانہ ہونا چاہیے۔جیسے کہ "آواز کو نیچا رکھو، کیونکہ سب سے بری آواز گدھے کی ہوتی ہے" — قرآن کا یہ حکم اساتذہ کے لیے بھی مشعلِ راہ ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ نبی کریم ﷺ بچوں کو سلام میں پہل کرتے، انہیں اہمیت دیتے، ان کی عزت کرتے۔ یہی اسلوب آج کے استاد کو اپنانا ہوگا تاکہ بچے محض تعلیمی روبوٹ نہ بنیں بلکہ اخلاق کے آئینے بن سکیں۔
خطاب کے اختتام پر محمدلطیف خان نے تمام اساتذہ سے اپیل کی کہ وہ اپنے دل میں یہ احساس جگائیں کہ وہ ایک نظریاتی مشن کا حصہ ہیں، نہ کہ صرف ایک اسکول کے۔ "یہ صرف ملازمت نہیں، یہ صدقۂ جاریہ ہے۔"
نشست کا اختتام دعا، شکر اور اساتذہ کو تربیت کے تحفے کے ساتھ ہوا، جو نہ صرف ان کے پیشہ ورانہ سفر بلکہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی رہبر ثابت ہوگا۔