the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے

سہیل انجم
کیا آپ دروپدی مرمو کو جانتے ہیں؟ یہ سوال اگر اکیس جون سے قبل پوچھا جاتا تو بہت کم لوگ اس کا جواب دے پاتے۔ لیکن اب نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا اس نام سے واقف ہو گئی ہے اور آئندہ پانچ سال تک یہ نام ملک و بیرون ملک کی اہم شخصیات کی زبان پر آتا رہے گا۔ جی ہاں اب دروپدی مرمو اس عظیم الشان مکان کی مکین بننے والی ہیں جو وائسرائے ہاو ¿س کہلاتا تھا اور جو برٹش راج کے آخری دور کے ہندوستانی حکمرانوں یعنی وائسرائے کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ہندوستانی جمہوریت کا کرشمہ ہے کہ وائسرائے کی رہائش گاہ اب ایک آدی واسی یا قبائلی خاتون کی سرکاری رہائش گاہ بننے والی ہے۔ اس کی تعمیر 1913 سے 1930 کے درمیان ہوئی تھی۔ اس کی تعمیر کے ساتھ ہی انگریزوں نے کلکتہ کے بجائے دہلی کو ہندوستان کا دار الحکومت بنایا تھا۔ دہلی میں پارلیمنٹ ہاو ¿س کے سامنے رائے سینا کی پہاڑی پر واقع یہ عمارت ساڑھے چار ایکڑ اراضی پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں 340 کمرے، 54 بیڈ روم ، دفاتر، باورچی خانے، پوسٹ آفس، شہرہ آفاق مغل گارڈن اور کھیل کے میدان ہیں۔ مرکزی بلاک کے اوپر واقع اس کے گنبد کی بلندی 177 فٹ ہے۔ 32 سیڑھیاں چڑھنے کے بعد دربار ہال کا داخلی دروازہ آتا ہے۔ جیسی کہ توقع تھی دروپدی مرمو اب ہندوستان کی خاتون اول بن گئی ہیں۔ اب وہ پانچ سال تک اسی پرشکوہ عمارت میں مقیم رہیں گی۔ وہ 25 جولائی کو حلف اٹھائیں گی۔ وہ پہلی آدی واسی صدر تو ہیں ہی، آزاد ہندوستان میں پیدا ہونے والی اور اب تک کی سب سے کم عمر صدر بھی ہیں۔ ان کی پیدائش جون 1958 میں ہوئی تھی۔ ان کے شوہر شیام چرن مرمو کا انتقال ہو چکا ہے۔ نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ میں صحافی شیلا بھٹ اور حمرہ لئیق کی ایک اسٹوری شائع ہوئی ہے جس میں ہندوستان کے اس متوقع نئے صدر کی زندگی کے منتشر اوراق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
دروپدی مرمو اڑیسہ کے میور بھنج ضلع کے ایک چھوٹے سے سنتھال گاو ¿ں اوپربیڈا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے شوہر کے گاو ¿ں کا نام پہاڑ پور ہے۔ ان کے صدر منتخب ہونے سے اس خطے کے جنگلوں میں رہائش پذیر ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں میں ایک نیا جوش پیدا ہو گیا ہے۔ وہ مذکورہ ضلع کے رائے رنگ پور اسمبلی حلقے سے دوبار منتخب ہوئی تھیں۔ وہ اسی علاقے میں ایک عرصے سے مقیم تھیں۔ لیکن ان کی قسمت نے جب یاوری کی تو انھیں صدارتی امیدوار بنا دیا گیا۔ اگر چہ حکومت نے آئندہ چند ماہ میں گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ذہن میں رکھ کر ان کو امیدوار بنایا تھا تاکہ ان ریاستوں میں بڑی تعداد میں موجود قبائلی ووٹرس کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے، لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ صدر جمہوریہ کے منصب کے لیے ان کے انتخاب نے ہندوستانی جمہوریت کا ایک نیا منظرنامہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ جہاں تک ان کی تعلیم اور کرئیر کا تعلق ہے تو وہ گریجوٹ ہیں۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں کچھ دنوں تک اڑیسہ کے سکریٹریٹ میں ملازمت کی تھی۔ سیاست میں آنے سے قبل وہ اسکول ٹیچر تھیں۔ وہ 1997 میں سیاست میں آئیں اور اڑیسہ کے رائے رنگ پور ضلع میں بی جے پی کے ٹکٹ پر کونسلر منتخب ہوئیں۔ تین سال بعد وہ وہاں سے بی جے پی کی رکن اسمبلی منتخب ہوئیں۔ جب 2000 میں اڑیسہ میں بی جے پی اور بیجو جنتا دل کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو انھیں وزیر بنایا گیا۔ انھوں نے بی جے پی کی میور بھنج ضلع کی صدر اور پارٹی کی درج فہرست یا قبائلی شاخ کی صدر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی تھیں۔ انھیں 2015 میں مودی حکومت کی جانب سے جھارکھنڈ کا گورنر نامزد کیا گیا۔ وہ ریاست کی پہلی خاتون گورنر تھیں۔ اس وقت انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنی زندگی میں بہت جد و جہد کی ہے۔ دو بیٹوں اور شوہر کے انتقال سے ان کی زندگی تباہ ہو گئی تھی۔ لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کے علاقے کے لوگ انھیں مائی کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہاں کے باشندے ان کے بارے میں کئی



کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کے چچا سمے ٹوڈو جو کہ ایک ریٹائرڈ بینک منیجر ہیں کہتے ہیں کہ ’وہ بہت جذباتی مگر اپنے فیصلے پر اٹل رہنے والی ہے۔ وہ ایک ضدی خاتون ہے۔ اس کے عزم کو کم کرکے مت دیکھئے۔ وہ کثیر المطالعہ ہے۔ وہ ایک خوددار خاتون ہے۔ اسے ربر اسٹیمپ مت سمجھئے‘۔ یاد رہے کہ ان کے حریف یشونت سنہا نے کئی بار کہا ہے کہ اگر وہ جیت گئیں تو وہ ربر اسٹیمپ ثابت ہوں گی۔ یعنی حکومت جہاںکہے گی وہاں دستخط کر دیں گی۔ مرمو کے ایک خاندانی دوست اور صحافی ربیندر پٹنائک کا کہنا ہے کہ ’وہ ایک سادہ عورت ہے۔ اس کی ضرورتیں محدود ہیں۔ وہ شدھ شاکاہاری ہے۔ جب وہ جھارکھنڈ کی گورنر بنیں تو انھوں نے ایک بل پر یہ کہتے ہوئے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہ قبائلیوں کے مفادات کے منافی ہے‘۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ان کی زندگی سنگھرش اور خوددادری کی کہانی ہے۔ 2009 میں جب ان کے پچیس سالہ بیٹے لکشمن کی بھونیشور کے ایک اجتماع میں غیر متوقع طور پر موت ہو گئی تو وہ ٹوٹ گئی تھیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس واقعہ سے میری زندگی میں سونامی آگیا تھا۔ میں ڈپریشن میں چلی گئی تھی اور لوگ کہتے تھے کہ یہ تو مر جائے گی۔ دو ماہ کے بعد انھوں نے برہما کماری آشرم جوائن کیا جہاں انھوں نے یوگا سیکھا۔ اس کے بعد سے وہ صبح کے ساڑھے تین بجے اٹھ جاتی ہیں اور رات میں ساڑھے نو بجے سو جاتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر ان کی زندگی میں اس وقت طوفان آیا جب ان کے چھوٹے بیٹے شیپون کی ایک سڑک حادثے میں موت ہو گئی۔ جب ان کی میت ان کے سامنے لائی گئی تو وہ چیخ چیخ کر رونے لگیں۔ انھوں نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا کہ ہے بھگوان تو مجھ سے اب اور کیا چاہتا ہے، میرے پاس اب کیا بچا ہے۔ اس کے ایک ماہ کے اندر ان کی ماں اور بڑے بھائی فوت ہو گئے۔ ایک سال کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے ان کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ دوسرے بیٹے کی موت کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ یوگا اور روحانیت کی وجہ سے اس بار ان کو پہلے جیسا دھچکہ نہیں لگا۔ لیکن ان کے شوہر ان کے مانند مضبوط اعصاب کے مالک نہیں تھے لہٰذا وہ موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے دوسری شادی نہیں کی بلکہ اپنی اکلوتی بیٹی کی پرورش میں لگ گئیں۔ پانچ افراد خانہ کے یکے بعد دیگرے انتقال کے بعد انھوں نے روحانیت کا راستہ اپنایا اور مکمل شاکاہاری ہو گئیں۔ جب وہ جھارکھنڈ کی گورنر تھیں تو وہاں کے باورچی خانہ میں نان ویج ممنوع تھا۔ ان کو جاننے والے کہتے ہیں کہ اگر وہ صدر بن گئیں تو وہ راشٹرپتی بھون کے نظام میں کافی حد تک تبدیلی کر دیں گی۔ رپورٹس کے مطابق انھوں نے پہاڑ پور کی اپنی املاک کو عوامی خدمت کے لیے وقف کر دیا ہے۔ وہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کی یاد میں ایک اقامتی اسکول چلاتی ہیں جہاں کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ وہاں انھوں نے متوفیوں کی سمادھی بھی بنا رکھی ہے۔
بہرحال یہ سب حقائق اپنی جگہ پر لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک کے صدر کے منصب پر وہ فٹ نہیں بیٹھتیں۔ اگرچہ صدر کا یہ منصب نمائشی ہے تاہم راشٹرپتی بھون کا مکین جمہوریہ ¿ ہند اور اس پرشکوہ عمارت کے شایان شان ہونا چاہیے۔ اس بات سے قطع نظر کہ دروپدی مرمو پہلی قبائلی خاتون صدر ہوں گی، ان کا سیاسی بائیو ڈیٹا بہت کمزور ہے۔ اگر موجودہ حکومت انتخابی کامیابی کو معیار بنانے کے بجائے امیدوار کی اہلیت، علمیت، سیاسی قد اور خدمات کو معیار بناتی تو وہ اس پر بالکل کھری نہیں اترتیں۔ حالانکہ سابقہ حکومتیں بھی سیاسی مصلحتوں کو سامنے رکھ کر صدارتی امیدوار تلاش کرتی رہی ہیں تاہم وہ اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ صدر ایسی شخصیت کو بنایا جائے جو اس اعلیٰ ترین منصب کا اہل ہو اور جس کی وجہ سے اس منصب کی چمک دمک بڑھ جائے۔ جب چھوٹے موٹے عہدوں کے لیے لوگوں کی زبان پر ’حق بحقدار رسید‘ آجاتا ہے تو صدر اسے بنایا جانا چاہیے جسے دیکھ کر لوگ بے ساختہ ’حق بحقدار رسید‘ کہہ اٹھیں۔
sanjumdelhi@gmail.com 
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.