the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
پی ٹی آئی:

نئی دہلی:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی مدافعت کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں کہا ہیکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت تعلیم کے معاملے میں درج فہرست اقوام سے بھی بدتر ہے اور صرف تعلیم کے ذریعہ انہیں باختیار بنایاجاسکتا ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ،جسٹس سنجیو کھنہ، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا، دیپانکر دتہ، منوج مشرااور ستیش چندر کی بنچ میں پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل نے کہاکہ ہندوستان میں مسلمان بااختیار نہیں ہیں۔ سبل نے کہاکہ آر ٹیکل 30کیا ہے۔ اس کے ذریعہ صرف کچھ تحفظات دیئے گئے ہیں اور اب اقلیتیوں کو بھی اس سے محروم کیا جارہا ہے۔ اگر انتظامیہ غیر ضروری طورپر مداخلت کرتے تو عدالتوں سے یقینا رجوع کیا جاسکتا ہے۔ مجھے یہ بات واضح کرنے دیجئے کہ تعلیم کے معاملہ میں مسلمان درج فہرست ذاتوں سے بھی نیچے ہے۔ یہ حقائق ہیں۔ مسلماں بااختیار نہیں ہیں۔چہارشنبہ کو ان درخواستوں پر سماعت کا دوسرا دن تھا، جن کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے ہے۔ کپل سبل اس کیس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائزایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہورہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے ایک دن قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی مخالفت کی۔ اس معاملے کو 2019میں اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی نے 7ججوں کی بنچ سے رجوع کیاتھا۔ سپریم کورٹ نے 1968میں عزیز باشاہ بنام ہند یونین کے کیس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو مرکزی یونیورسٹی قرار دیا تھا۔ اس کیس میں عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ آرٹیکل



29اور 30کے تحت سنٹرل یونیورسٹی کو اقلیتی موقف نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم بعد میں اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کے ذریعہ ادارے کا اقلیتی موقف بحال کیاگیا۔ اسے الہ آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیاگیا جس نے اس اقدام کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا،جس کے خلا ف سپریم کورٹ میں اے ایم یو کی جانب سے فوری اپیلیں دائر کی گئیں۔2016میں مرکزی حکومت نے اس معاملہ میں اپیل واپس لے لی تھی۔منگل کو قطعی سماعت شروع ہوئی۔7ججوں کی بنچ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ محض اس وجہ سے کسی تعلیمی ادارے کو اقلیتی موقف سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ اسے قانون کے تحت پابند ضابطہ بنایاگیاہے۔اس دوران برسٹر اسدالدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآبادنے کہاہے کہ مرکزکی نریندر مودی زیر قیادت حکومت کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی جارہی ہے کہ یہ ایک ”قومی ادارہ“ہے۔دستور کے آرٹیکل 30کے تحت اقلیتوں کو اپنے اداروں کو قائم کرنے اور اپنے زیر انتظام رکھنے کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ابتداء سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ رہا ہے۔ اس ادارہ نے بھارت کی ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ نریندر مودی حکوم تکی مسلمانوں کے خلاف نفرت سب کے سامنے واضح ہے۔ وہ یہ نہیں برداشت کرسکتے کہ مسلمان اعلی تعلیم حاصل کریں اور قومی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ بیرسٹر اسدالدین اویسی ایم پی وصدر مجلس نے علی گڑھ یونیورسٹی کے سلسلہ میں سپریم کورٹ میں اس کے اقلیتی کردار سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے ایک پوسٹ میں یہ بات بتائی۔
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.