کیا لیونل میسی کا دورہ ہندوستانی فٹ بال کو فروغ دے گا؟

بہار میں آیوش پریکٹیشنرز کو تقرری نامے تقسیم کرنے کی ایک سرکاری تقریب اس وقت شدید تنازع کا شکار ہوگئی، جب وزیرِ اعلیٰ بہار نتیش کمار کی جانب سے ایک مسلم خاتون کے ساتھ نہایت نامناسب اور قابلِ اعتراض رویہ سامنے آیا۔
تقریب کے دوران، ایک مسلم خاتون جو برقع اور حجاب میں ملبوس تھیں اور غالباً اپنا تقرری نامہ حاصل کرنے کے لیے اسٹیج پر موجود تھیں، وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار نے مبینہ طور پر ان کے چہرے سے نقاب/حجاب ہٹانے کی کوشش کی۔ حیران کن طور پر، نائب وزیرِ اعلیٰ نے انہیں روکنے کی کوشش بھی کی، مگر اس کے باوجود یہ عمل انجام پایا۔
یہ کوئی معمولی حرکت نہیں تھی، نہ ہی اسے غیر رسمی یا تجسس کے دائرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ حجاب کوئی ملبوسات کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک باخبر، باوقار اور رضاکارانہ مذہبی شناخت ہے۔ اس میں زبردستی مداخلت کرنا کھلی بے احترامی، احساسِ برتری اور امتیازی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب نتیش کمار کے عوامی رویے پر سوالات اٹھے ہوں۔
ماضی میں بھی ان کے کئی ویڈیوز منظرِ عام پر آچکے ہیں جن میں وہ غیر موزوں اور عجیب و غریب طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اس وقت پوری ذہنی یکسوئی میں تھے؟ اگر نہیں، تو ایسے اہم آئینی منصب پر فائز شخص کے رویے کا احتساب کون کرے گا؟
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ اگر اسی نوعیت کا واقعہ کسی اور مذہبی یا سماجی طبقے کی خاتون کے ساتھ پیش آتا تو شاید فوری اور شدید ردعمل سامنے آتا۔ پھر آج اس واقعے پر خاموشی کیوں؟ کیا مسلم خواتین کے وقار اور مذہبی آزادی کی کوئی قیمت نہیں؟
یہ واقعہ محض ایک فرد کی توہین نہیں بلکہ ایک پوری برادری کے مذہبی جذبات، شخصی آزادی اور انسانی وقار پر حملہ ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بہار نتیش کمار کو اس شرمناک واقعے پر بلا تاخیر عوامی معافی مانگنی چاہیے اور اس بات کی یقین دہانی کرانی چاہیے کہ آئندہ کسی بھی خاتون کے مذہبی، ذاتی اور آئینی حقوق کی پامالی نہ ہو۔
جمہوریت صرف عہدوں سے نہیں، رویّوں سے پہچانی جاتی ہے۔ اور اقتدار میں بیٹھے افراد سے سب سے پہلے احترام، شعور اور ذمہ داری کی توقع کی جاتی ہے۔