the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
یہ 21؍ فروری 2022ء کی بات ہے۔ پیر کا دن تھا۔ مدھیہ پردیش کے شہر اندور میں واقع مہاتما گاندھی میڈیکل میں امتحانات جاری تھے۔ دوسرے امتحانات کی طرح اس امتحان طلبہ کی تلاشی کا عمل جاری تھا۔ حالانکہ یہ طلبہ امتحان کامیاب کرنے کے بعد ڈاکٹر بننے والے تھے لیکن ان کے ساتھ کسی طرح کا کوئی امتیاز نہیں برتا جارہا تھا۔

جنرل میڈیسن کا امتحان تھا۔ اس پرچہ میں (79) طلبہ شریک تھے۔ عین امتحان کے دوران فلائنگ اسکواڈ آگیا۔ اس اسکواڈ کا تعلق دیوی اہلیہ بائی یونیورسٹی سے تھا اور یونیورسٹی کے ڈپٹی رجسٹرار رچنا ٹھاکر اس اسکواڈ کی قیادت کر رہی تھیں۔ امتحان میںشریک ایک طالب علم کی تلاشی لی گئی تو اس کے پینٹ کی اندرونی جیب سے ایک موبائل فون برآمد ہوا۔


فون آن تھا اور فون پر بتلارہا تھا کہ اس کے ساتھ ایک بلیو ٹوتھ آلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ لیکن بلیو ٹوتھ آلہ کہاں ہے اس کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ فلائنگ اسکواڈ نے اس ہونے والے ڈاکٹر طالب علم کو پکڑ اس سے پوچھ تاچھ شروع کی۔

اخبار ہندوستان ٹائمز کی 22؍ فروری کو شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پوچھ تاچھ کے دوران طالب علم نے اعتراف کرلیا کہ اس کے پاس بلیو ٹوتھ بھی موجود ہے۔ اب یہ کہاں پر چھپایا گیا ہے وہ سن کر سب کا سر چکراگیا۔

طالب علم نے بتلایا کہ اس نے چھوٹے سے بلیوٹوتھ کو سرجری کے ذریعہ میں اپنے کان میں ایسا چھپا لیا ہے کہ وہ جلد کے اندر ہے۔ باہر سے نظر تو نہیں آتا ہے لیکن فون سے بات چیت سننے کے کام ضرور آتا ہے۔ بعد میں طالب علم نے مزید بتلایا کہ اس نے ایک ENT سرجن کی مدد سے بلیو ٹوتھ کو اپنے کان کی جلد میں فٹ کروالیا ہے۔ پولیس اب کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق جس طالب علم کو بلیوٹوتھ کی مدد سے نقل نویسی کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا وہ پچھلے گیارہ برسوں سے میڈیکل کالج میں پڑھ رہا ہے حالانکہ ایم بی بی ایس کی تعلیم صرف پانچ برس کی ہے لیکن یہ طالب علم اپنے فائنل ایئر کے امتحان میں فیل ہوتا جارہا تھا اور اس مرتبہ اس کے لیے بالکل آخری موقع تھا کہ وہ جنرل میڈیسن کا امتحان پاس کرے۔

قارئین کرام ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم اگر نقل نویسی کے بجائے اپنے مضمون میں محنت کرتا تو شائد پاس بھی ہوسکتا ہے۔

ذرا اندازہ لگائیں کہ وہ طلباء جو ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران نقل کرتے ہیں اور پکڑے نہیں جاتے تو وہ تو پھر اپنی پریکٹس کے دوران کس طرح خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ دوسری اہم بات امتحان ہال میں ایک سے بڑھ کر ایک تکنیک اور ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے نقل کرنے کے واقعات جتنے بھی سامنے آتے ہیں ان میں سے اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔

آخر کیوں لڑکیوں میں نقل نویسی (Cheating) کا رجحان کم یا نہیں کے برابر ہوتا ہے اور لڑکے اس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ ذرا سونچئے گا۔ ہمارے معاشرے میں لڑکوں کے اس بگاڑ پر توجہ دینا کس قدر ضروری ہے۔

یہ کوئی ایک اکلوتا واقعہ نہیں ہے۔ کیرالا کے تھرواننتا پورم کے رہنے والے ایک شخص نے OLX پر ایک کار برائے فروخت کا اشتہار دیکھا۔ کار کو دیکھنے کے بعد اس کی قیمت طئے کی اور اشتہار دینے والے کار مالک کو کار کی قیمت آن لائن ٹرانسفر کردی۔ کار خریدنے والا شخص کو ذی کوڈ کا رہنے والا تھا۔

کار خرید کر وہ واپس اپنے گھر جارہا تھا راستے میں ایک ہوٹل پر وہ کھانے کے لیے رکا اور کار کو پارکنگ لاٹ میں رکھ کر ہوٹل میں گیا لیکن جب وہ واپس جانے کے لیے باہر نکلا تو اس کے تعجب کی انتہاء نہیں رہی۔ کیونکہ پارکنگ کے علاقے سے اس کی سیکنڈ ہینڈ کار جو اس نے OLX کے ذریعہ خریدی تھی غائب ہوچکی تھی۔

کوذی کوڈ کے اس شخص نے فوری طور پر پولیس میں شکایت درج کروائی اور تفصیلات فراہم کی کہ اس نے OLX کے ذریعہ کار خریدی تھی جن سے کار خریدی ان کا فون نمبر یہ ہے اور ان کو رقم کی ادائیگی آن لائن کی گئی جب وہ کار کو ایک ہوٹل کے قریب پارک کر کے کھانے گئے تھے واپسی تک ان کی کار غائب تھی۔

8؍ فروری کو پولیس نے 23 سے 28 برس کے تین نوجوانوں کو گرفتار کر کے اس کار چوری کے واقعہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان تینوں نوجوان کا تعلق ملاپورم سے بتلایا گیا ہے اور پولیس کے مطابق یہ نوجوان پہلے تو کار فرخت کرتے ہیں اس کام سے پہلے وہ لوگ کا رمیں (GPS) کا ٹریکنگ آلہ لگاکر کار کی ایک ڈپلیکیٹ کنجی بنالیتے ہیں اور کار کو فروخت کرنے کے بعد یہ لوگ GPS کے ذریعہ کار کا لوکیشن پتہ کرلیتے اور پھر اپنے ہاں موجود کنجی سے کار لے کر فرار ہوجاتے۔

پھر اسی کار کو ایک نئے خریدار کو فروخت کردیتے۔ دھوکہ دے کر کاروں کی خرید و فروخت کرنے والے نوجوانوں کا یہ گروہ بنگلور میں پرتعیش زندگی گزار رہا تھا۔ پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے فون نمبرس اور گوگل پے کے ذریعہ اصل خاطیوں کا پتہ چلاکر انہیں گرفتار کر کے مزید تحقیقات کا آغاز



کردیا۔

پولیس کے حوالے سے اخبار نیو انڈین ایکسپریس نے 16؍ فروری 2022 کو تفصیلی خبر شائع کی۔کسی اخبار کا مطالعہ کریں یا ٹیلی ویژن چیانلس ہو یا سوشیل میڈیا، ان سبھی پلیٹ فارمس پر ایسی کئی خبریں اور اطلاعات آپ کو ملیں گی جس سے اندازہ ہوگا کہ آج کے نوجوان بچے منفی ذہنیت کا شکار بن کر برائی اور جرائم کے راستے پر چلتے ہوئے خود اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔

نوجوانوں نے تعلیم حاصل نہیں کی تو محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے آٹو چلاکر پیسے کمانے کا راستہ ڈھونڈنکالا۔ بڑی اچھی بات ہے کہ نوجوان محنت کر رہے ہیں مگر جب یہی آٹو والے اپنے آٹوز کو کمائی کا ذریعہ بنانے کے بجائے کرتب دکھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 26؍ فروری کو شہر حیدرآباد سے ایک خبر شائع کی کہ جمعرات کی رات کنچن باغ ڈی آر ڈی ایل روڈ اور چندرائن گٹہ کے علاقے میں تین آٹوز کے ڈرائیورس کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ان پر الزام ہے کہ ان لوگوں نے اپنے تین پہیوں کے آٹو کو دوپہیوں پر چلاتے ہوئے نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالا بلکہ سڑک پر موجود دیگر سواریوں اور گاڑیوں کے لیے بھی خطرناک حالات پیدا کردیئے۔

جب پولیس ان آٹو والوں کو پکڑنے کے لیے پہنچی تو یہ لوگ فرار ہوگئے لیکن تب تک لوگوں نے ان آٹو والوں کی کرتب بازیوں کو اپنے موبائل فون میں ریکارڈ کرلیا تھا۔ سوشیل میڈیا پریہ ویڈیوز خوب شیئر ہوئے اور ویڈیو میں ملنے والے آٹوز کے رجسٹریشن نمبرس کی مدد سے پولیس ان آٹو مالکان کے گھروں تک پہنچ گئی اور تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ ان آٹوز پر ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیوں کے لیے14,600 سے زائد کے چالانات باقی ہیں۔

یومیہ آٹو چلاکر اپنی گذر بسر کرنے والے ان آٹو والوں کو نہ صرف جرمانہ ادا کرنا ہے بلکہ پولیس کیس کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس طرح کی صورت حال کے لیے کون ذمہ دار ہے۔ ذرا غور کریں۔ یقینا مسائل اور پریشانیاں ہر ایک کے ساتھ لگی ہوئی ہیں لیکن و جو نوجوان پریشانیوں اور مسائل کو خود دعوت دے رہے ہوں ان کو کیا کہنا مناسب ہوگا؟آیئے اب اس غریب لڑکی کی خبر ملاحظہ کریں۔

سبیتا کی عمر 19 برس ہے۔ وہ تلنگانہ ریاست کے ضلع نلگنڈہ کی رہنے والی ہے۔ انٹر میڈیٹ کی اسٹونٹ سبیتا اپنے گھر والوں کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ گورنمنٹ جونئیر کالج، نکریکل کی اس طالبہ نے تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر والوں کی مدد کرنے کے لیے آٹو چلانے کا فیصلہ کیا۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا، حیدرآباد ایڈیشن میں 17؍ فروری کو شائع شدہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سات مہینوں سے سبیتا آٹو چلا کر اپنے گھر والوں کی مدد کر رہی ہے۔

سبیتا کی ماں ایک ہوٹل میں کام کرتی ہے اور ہوٹل کے مالک کے پاس سامان لانے لے جانے کے لیے ایک آٹو تھا تو سبیتا نے ہوٹل مالک سے ہی درخواست کی کہ اگر وہ اسے آٹو چلانا سکھادے تو وہ اس کا سامان لانے لے جانے کا کام کرے گی۔

تین دنوں میں آٹو چلانا سیکھ کر اس لڑکی نے Learner’s لائسنس حاصل کرلیا اور اپنے کالج کو جانے کے لیے بھی آٹو ہی استعمال کرنے لگی۔ گائوں سے کالج کا فاصلہ 21 کیلومیٹر تھا۔ اب راستے میں اس لڑکی نے سواریاں بٹھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔ یوں کالج جانے اور آنے کے دوران سواریاں کرنے سے آمدنی بھی ہوجاتی۔

نلگنڈہ کی اس باعزم انٹرمیڈیٹ اسٹوڈنٹ کی کہانی جب انٹرنیٹ پر وائرل ہوگئی تو تلنگانہ کے ریاستی وزیر کے ٹی آر نے اس لڑکی کے لیے ایک نئے آٹو کی خریداری کے لیے چار لاکھ کی مالی امداد منظور کردی۔ ساتھ اس کے گھر والوں کے لیے ڈبل بیڈ روم کا ایک فلاٹ بھی الاٹ کردیا۔

سبیتا کالج کو آتے جاتے سواری کر کے آٹو سے روزانہ 200 تا 300 کی آمدنی حاصل کرتے ہوئے اپنے گھر والوں کی مدد بھی کر رہی ہے اور اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

ذرا غور کیجئے گا اپنے اطراف و اکناف میں لڑکیاں ہر میدان، ہر شعبہ میں محنت، ایمانداری اور تعلیم کے ذریعہ ترقی کر رہی ہیں اور لڑکے تعلیم کے میدان میں بھی نقل کرتے ہوئے پکڑے جارہے ہیں، گاڑیوں کے کاروبار کے نام پر دھوکہ دے رہے ہیں۔ آٹو چلاکر کمانے کے بجائے کرتب بازیاں کر کے الٹا اپنا ہی نقصان کروارہے ہیں۔

کچھ تو خامی ہے بچوں کی تربیت میں۔ ہم لڑکیوں کو تو ذمہ دار اور باشعور بنا رہے ہیں اور لڑکوں لاڑ و پیار اور بے جا محبت کے ذریعہ تعلیم سے بے بہرہ، کام چور، نکمے اور غیر ذمہ دار بنا رہے ہیں۔

اولاد کی تربیت کے بارے میں حدیث نبویﷺ ہے کہ ’’کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہترتحفہ یہ ہے کہ وہ اس کی اچھی تربیت کرے۔‘‘ (سنن ترمذی)

(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.